*دنیا کا تیز ترین طیارہ اور کائنات کی وسعت*
اگر آپ دنیا کے سب سے تیز رفتار طیارے کے بارے میں سنیں تو شاید آپ کے ذہن میں کوئی جدید جنگی طیارہ یا سپر سونک جیٹ آئے، لیکن حقیقت میں، X-15 دنیا کا اب تک کا تیز ترین طیارہ ہے، جو امریکہ نے 1959 میں تیار کیا تھا۔ یہ طیارہ 7,273 کلومیٹر فی گھنٹہ (Mach 6.72) کی ناقابلِ یقین رفتار سے پرواز کر سکتا ہے۔ اس رفتار کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر آپ پشاور سے دبئی کسی عام مسافر بردار جہاز جیسے PIA میں جائیں تو آپ کو تقریباً تین گھنٹے لگیں گے، لیکن X-15 کے ذریعے یہ فاصلہ صرف 13 منٹ میں طے کیا جا سکتا ہے!
یہ طیارہ صرف خصوصی تربیت یافتہ پائلٹ ہی اڑا سکتے ہیں، کیونکہ اس کی طاقت عام طیاروں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ اسے پہلی بار ولیم جے پیٹ نائٹ نے اڑایا تھا۔ تاہم، ایک اہم بات یہ ہے کہ یہ طیارہ زمین سے باہر نہیں جا سکتا کیونکہ یہ اسکیپ ولاسٹی (11.2 کلومیٹر فی سیکنڈ) حاصل کرنے سے قاصر ہے۔ اگر یہ رفتار حاصل کر لے تو یہ خلا میں جا سکتا ہے، لیکن فی الحال یہ صرف زمین کے قریب ترین فضا میں چل سکتا ہے۔
کائنات کے سفر کی ناممکن حقیقت
یہ تو ہوا ایک طیارے کی رفتار کا ذکر، لیکن اگر ہم کائنات کے سفر کی بات کریں تو یہ انسانی تصورات سے بھی کہیں زیادہ حیران کن ہے۔
ہماری زمین کے قریب ترین ستارہ، پروکسیما سینٹوری، 4.24 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم روشنی کی رفتار (300,000 کلومیٹر فی سیکنڈ) سے بھی سفر کریں تو وہاں پہنچنے میں 4.24 سال لگیں گے۔ جبکہ موجودہ خلائی جہازوں کے ساتھ یہ سفر ہزاروں سال لے سکتا ہے، جو کہ عملی طور پر ناممکن ہے۔
اب ایک اور دلچسپ حقیقت پر غور کریں: کائنات میں سب سے بڑی معروف ساخت ایک کہکشانی سپرکلسٹر ہے، جسے "ہرکولیس-کورونا بوریلیس عظیم دیوار" کہا جاتا ہے۔ یہ اتنی وسیع ہے کہ روشنی کو اس کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک جانے میں 10 بلین سال لگ جاتے ہیں!
اگر ہم فرض کریں کہ X-15 اس عظیم دیوار کو پار کرنے کی کوشش کرے، تو کتنا وقت لگے گا؟ حساب اتنا بڑا ہے کہ آپ کا کیلکولیٹر بھی جواب دے دے گا! کیونکہ جب روشنی کو ہی 10 ارب سال لگتے ہیں، تو X-15 جیسے طیارے کے لیے تو یہ سفر ناقابلِ تصور حد تک طویل ہوگا۔
انسان کی حد اور سوچ کی پرواز
یہ تمام حقائق ہمیں یہ باور کرواتے ہیں کہ ہم کائنات میں ایک انتہائی معمولی اور محدود مخلوق ہیں۔ ہم زمین پر محدود ہیں، اور دور دراز ستاروں اور کہکشاؤں تک پہنچنا ہمارے موجودہ سائنسی وسائل کے لحاظ سے ناممکن ہے۔ لیکن ہماری سوچ پر کوئی حد نہیں۔ ہم سوچ سکتے ہیں، خواب دیکھ سکتے ہیں، اور ممکن ہے کہ آنے والے ہزاروں سالوں میں ایسے طریقے دریافت کیے جائیں جو آج ہمارے لیے سائنس فکشن کی مانند لگتے ہیں۔
کائنات میں ہماری موجودگی ایک نقطے سے زیادہ نہیں، لیکن ہمارے خواب اور تجسس ہمیں لا محدود وسعتوں تک لے جا سکتے ہیں!
All about the world